MaulanaSubhan Ali khan Barelvi Ep.68 مولانا سبحان علی خان بریلوی

Baseerat TV
Baseerat TV
624 بار بازدید - 7 ماه پیش - مولانا سبحان علی خان سن
مولانا سبحان علی خان سن 1180 ہجری  میں شہر بریلی صوبہ اترپردیش میں پیدا ہوئے ، موصوف کے والد جناب علی حسین کنبوہ کے نام سے معروف تھے۔
علامہ عبدالحیی کے بقول: "مولانا سبحان علی کے بزرگ قائن (خراسان-ایران)سے ہندوستان آئے تھے"۔ نواب سبحان علی خان کا شمار اپنے دور کے مشہور و معروف اور بزرگ علماء میں ہوتا ہے، موصوف علم منطق، فلسفہ،  ادب، تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ میں قابلِ رشک مہارت کے مالک تھے۔
مولانا سبحان علی خان کے،  علامہ شیخ محمد علی حزینؔ لاہیجی اور علامہ تفضل حسین خان سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ غفرانمآب علامہ سید دلدار علی، مولانا سبحان علی کا بہت احترام کرتے تھے۔ مفتی محمد قلی، مفتی محمد عباس شوشتری، سلطان العلماء سید محمد بن غفرانمآب وغیرہ نے جو مولانا سبحان علی کے نام خطوط لکھے ہیں ان سے سمجھ میں آتا ہے کہ مولانا موصوف کتنے باصلاحیت ، مقدس اور اہم شخصیت کے مالک تھے!۔
مولانا سبحان علی عتبات عالیات اور بیت اللہ الحرام کی زیارات سے مشرف ہوئے۔  آپ مختلف علوم میں ماہر تھے چنانچہ متعدد موضوعات پر کتابیں بھی تالیف کیں جن میں سے اکثر کتابیں جنگ آزادی  کی نذر ہوگئیں اور کچھ کتابیں گھر تبدیل کرتے وقت ضائع ہوگئیں۔
اگرچہ حکومت اودھ کا زمانہ بہت کم تھا لیکن اس مختصر عرصہ کو غنیمت شمار کرتے ہوئے دین کے خدمتگزاروں نے قومی خدمت کے حوالہ سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی بلکہ  آپ نےحتی الامکان خدمات انجام دیں؛ مطب ، کلینک، ہاسپٹل ، اسکول،  نشر و اشاعت کے ادارے  اور تحقیقی مراکزبنائے ۔  ان کی خدمات میں سے ضرورتمندوں کے لئےگھر بنوانا، مسجد، امامباڑے، باغات وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔
محمد شاہ کنبوہ  کا بیان  ہے: میں نواب سبحان علی خان کا پوتا ہوں، ایک عرصہ سے کربلا میں مقیم ہوں، میںیہاں پر زمیندار ہوں، انہوں  نے(یعنی میرے دادا سبحان علی خان نے) یہ جائداد بادشاہ غازی الدین حیدر کے ذریعہ وقف کرائی تھی۔
مولانا سبحان علی خان نے کافی تعداد میں علمی سرمایہ  چھوڑا  جس میں سےشمس¬الضحیٰ، شرح حدیث اثر،حدیث ثقلین، حدیث حوض، لطافۃ المقال، جواب رسالہ مکاتیب حیدر علی وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
خداوند عالم نے مولانا موصوف کو پانچ نعمتوں سے نوازا جن کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: احسان حسین، مظفر حسین، فدا حسین،رضا حسین  و    پیارےصاحب۔
آخرکار مولانا سبحان علی خان سن 1264ہجری  میں جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی طرف کوچ کرگئے اور آپ کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد کربلائے معلّی عراق  میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ہند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ  چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص271،  دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
۞۞۞
7 ماه پیش در تاریخ 1402/11/28 منتشر شده است.
624 بـار بازدید شده
... بیشتر