Karbala Rawangi | Muharram 2021 | Imam Hussain (AS) | Bibi Sughra (SA) | Mola Abbas (AS)

Tasshayyo
Tasshayyo
4.1 هزار بار بازدید - 3 سال پیش - Karbala Ki Aesi Rawangi Shaid
Karbala Ki Aesi Rawangi Shaid Hi Is Say Qabal App Nay Suni Ho. Karbala Rawangi Imam Hussain (AS) Ki Mola (AS) Say Guftugu Bibi Sughra (SA) Ki Imam Hussain (AS) Say Guftugu Bibi Zainab (SA) Ki Sawari Ka Manzar Imam Hussain (AS) Ka Qabar Rasool (SAW) Ko Alwida Kehna Bibi Ume Salma Ka Imam Hussain (AS) Say Guftugu Bibi Sakina (SA) Ki Bibi Sughra (SA) Say Guftugu تنہائی چھا رہی ہے مزارِ رسولؐ پر بے وارثی بستی ہے قبرِ بتولؑ پر کنبے کا ہے ہجوم شہؑ دل ملول پر جھرمٹ ہے عندلیبوں کا زہراؑ کے پھول پر آگے بنیؐ کے خُلد میں زہراؑ تڑپتی ہے یاں سامنے حسینؑ کے صغراؑ تڑپتی ہے جب گل نہ ہوتو بلبلِ شیدا کی موت ہے سبزہ نہ ہوتو آہوئے صحرا کی موت ہے پانی بغیر ماہئی دریا کی موت ہے چھٹنا مرض میں باپ سے صغراؑ کی موت ہے اک آن بھی رہیں نہ زمانے میں چین سے زہراؑ نبیؐ سے چھوٹ کر صغراؑ حسینؑ سے کہتی ہے باپ سے کہ نہ کیونکر ہو بے کلی زہراؑ چھٹیں نبیؐ سے تو موجود تھے علیؑ لیکن عجب قلق میں ہے اس دم یہ دل جلی ہے ہے قضا مدینے کی رونق کو لے چلی بچپن بھی، تپ بھی اور یہ غضب کی جدائی بھی ماں باپ بھی بچھڑتے ہیں بہنیں بھی بھائی بھی دامن پکڑ کے کہتی ہے بابا کب آؤ گے لے جاؤ گے ہمیں کہ یہیں چھوڑ جاؤ گے بیمار کی خبر بھی کسی سے منگاؤ گے یا پیار میں سکینہؑ کے ہم کو بھلاؤ گے لینے کو میرے بھیجو گے کس کو مدینے سے یا نامید ہی رہوں اپنے جینے سے دیکھیں تو آپؑ حالِ تپش کے وفور کا لو سے ہے دل کباب وُحوش و طیور کا نزدیک کا سفر ہے میں واری کہ دور کا کل تیس دن کا ہے علی اصغرؑ حضورؑ کا اس سِن کے بچے چین سے جھولے میں سوتے ہیں یہ اک مہینے کے وطن آوارہ ہوتے ہیں لکھ بھیجئے نہ دوستوں کو اپنے ہیں کہ غیر؟ دشوار ان دنوں ہے عراق عرب کی سیر تونسے ہوئے ترپٹے ہیں جھیلوں میں وحش و طیر گرمی کے بعد آؤں گا میں زندگی بخیر شاید مجھے بھی قیدِ مرض سے نجات ہو پھر کوچ کیجیے تو یہ لونڈی بھی سات ہو بابا ابھی نہ حکم سواری کا دیجیے نادان کی بھی بات یہ اک مان لیجیے قرآن لاؤں مشورہ خالق سے کیجیے لاکھوں برس حبیبِ نبیؐ و علیؑ جیے رستے کی آفتوں سے خدا ہی پناہ دے بسم اللہ استخارہ، سفر کو جو راہ دے فرماتے ہیں حسینؑ توقف کی جا نہیں اس کوچ میں مقام کوئی عُذر کا نہیں بے درد و غم کے حُبِ خدا کا مزا نہیں اس راہ میں بقا ہی بقا ہے فنا نہیں اہل ادب سنبھل کے یہاں پاؤں دھرتے ہیں یہ راہ وہ ہے سر سے جسے قطع کرتے ہیں یہ راہ انبیائے اولوالعزم کم چلے لیکن خدا کے عاشق ثابت قدم چلے اک حضرت امیر چلے ایک ہم چلے سجدے سے سر نہ سرکے جو تیغِ ستم چلے گزرے سو گزرے ہوئے جو ہونا ہو ڈر نہیں سودا خدا کے عشق کا ہے فکرِ سر نہیں واللہ اعلم آئیں گے اب یا نہ آئیں گے کس کو خبر ہے حد سے ہم آگے نہ جائیں گے موقع ہوا تو بی بی کو اپنی بلائیں گے بے کربلا کے رتبہ عالی نہ پائیں گے مشتاق امتحان کا رب غفور ہے عاشور کو وہاں مرا ہونا ضرور ہے سبطِ رسولؐ نے جو لیا نامِ کربلا چھائی بھرے محل پہ اُداسی ہر ایک جا فریاد امِ سلمہ نے کی وا محمدؐا منہ دیکھ کر حسینؑ کا حسرت سے یہ کہا کیوں واری کربلا یہ وہی ارضِ پاک ہے شیشے میں جس زمینِ مقدس کی خاک ہے؟ شہؑ نے بھری اک آہ کہ ہاں اماں جان ہاں نانا سے اس زمیں کا سنا ہوئے گا بیاں اماں یہ بے نشانوں کی قبروں کا ہے نشاں صغراؑ پکاری ہائے نکل جاؤں میں کہاں باتیں صفر کی رمز و کنایہ میں ہوتی ہیں بابا تو ضبط کرتے ہیں اور نانی روتی ہیں جبراً کیا تھا آپؑ کو فرقت کا اختیار پر اب کلامِ یاس سے لونڈی ہے بیقرار کیا جانیں پھر ملیں نہ ملیں شاہِ نامدار اب میں ہوں اور بہنوں کے ناقوں کی ہے مہاد چلنا گوارا کیجیے اس تلخ کام کا صدقہ سکینہؑ بی بی کے کوش اور مقام کا بہنوں کو، والدہ کو مبارک عماریاں معراج سمجھوں گی میں بٹھا دو گے تم جہاں تکیہ عصا بچھونا میں سب چھوڑوں گی یہاں پھر اور کیا ہے کچھ نہیں، مٹھی بھر استخواں مشکل صفر کی کنبے پر آسان ہوئے گی بیمار تندرستوں پہ قربان ہوئے گی اس التجا نے شاہؑ کی حالت تباہ کی آنکھوں کو ڈبڈبا کے حرم پر نگاہ کی سب نے بیاں مریض سے تکلیفِ راہ کی آخر کہا خوشی تمہیں لازم ہے شاہؑ کی بہرِ خدا نہ چشم کو خونریز کیجیے بی بی کو تپ ہے کوچ سے پرہیز کیجیے صغراؑ پکاری ہائے مقدر دہائی ہے دنیا میں کیا مجھی کو انوکھی تپ آئی ہے تپ ہے تو خیر تپ کی دوا بھی ٹھنڈائی ہے ہے ہے مرے بخار کا درماں جدائی ہے بیمار کی خبر نہیں ماں باپ لیتے ہیں ؟ تب آتی ہے تو بیٹیوں کو چھوڑ دیتے ہیں ؟ لوگو یہی سہی، مری غربت پر رحم کھاؤ بیمار خود پڑی ہوں خطا میری بخشواؤ للّٰلہ اس قصور کی تعزیر سے بچاؤ حضرتؑ کو دو قسم کو نہ صغراؑ کو چھوڑ جاؤ یہ جان لو جو گھر میں رہی تو مر گئی اور اونٹ پر چڑھی تو وہیں تب اتر گئی اے لوگو بے حواس نہ ہو تپ کے آنے سے تپ اس گھڑی تو آئی ہے بابا کے جانے سے آنکھیں بھی دونوں لال ہیں آنسو بہانے سے منہ زرد ہوگیا ہے فقط ہول کھانے سے رومال سے جو ماتھے کو باندھا تو کیا ہوا سر پیٹنے سے دردِ سر اس دم سوا ہوا تپ کی حرارت اور قلق کا بخار اور وہ تھر تھرانا اور ہے یہ اضطرار اور وہ سانس چڑھنا اور یہ دم کا شمار اور سر پھرنا اور گردشِ لیل و نہار اور عیسیٰ کو میرے حال کی جلدی خبر کرو دیکھا تھا کل بھی چہرہ اب بھی نظر کرو کل بھی بھلا تڑپتے تھے ہم لو تمہیں کہو چلنے میں کانپتے تھے قدم لو تمہیں کہو کل بھی کمر تھی ضغف سے خم، لو تمہیں کہو رونے سے آنکھوں پر تھا ورم لو تمہیں کہو کپڑا بندھا تھا سر پہ، رخ ایسا ہی زرد تھا؟ کھاؤ تو میرے سر کی قسم کل یہ درد تھا؟ مشکل ہے آن بان مرض میں نباہنا اُٹھنے میں بیٹھنے میں نہ امداد چاہنا ان عارضوں میں میرے جگر کو سراہنا اب نہ سنا نہ ہوئے گا میرا کراہنا اکثر ہوا کہ ہوش بھی تپ میں رہا نہیں پر منہ سے یاعلیؑ کے سوا کچھ کہا نہیں ............................راہی ہوئے رواق #muharram2021 #karbala2021
3 سال پیش در تاریخ 1400/05/26 منتشر شده است.
4,132 بـار بازدید شده
... بیشتر