Person awliya don't worried. They're awliya always calm

Deaf Islamic Foundation
Deaf Islamic Foundation
3.9 هزار بار بازدید - 2 سال پیش - القرآن - سورۃ نمبر10 يونس
القرآن - سورۃ نمبر10 يونس آیت نمبر 62 أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم ۞ِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ۞ ِ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ ۞ لفظی ترجمہ: اَلَآ : یاد رکھو | اِنَّ : بیشک | اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ : اللہ کے دوست | لَا خَوْفٌ: نہ کوئی خوف | عَلَيْهِمْ : ان پر | وَلَا : اور نہ | ھُمْ : وہ | يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے ترجمہ: سن لو ! بیشک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ۔۔ : ”اَلَا“ حرف تنبیہ کہلاتا ہے، یعنی خوب سن لو، آگاہ ہوجاؤ، بہت اہم بات ہونے والی ہے۔ حافظ ابن حزم اندلسی ؓ نے ایک رسالہ لکھا ہے ”اَلْاَخْلَاقُ وَ السِّیَرُ“ جس میں اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بیان فرمایا ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں : ”میں نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا میں جو شخص کوئی بھی محنت کرتا ہے اس کے پیش نظر خوشی کا حصول اور خوف (و غم) سے بچنا ہوتا ہے۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خوشی کے حصول اور خوف و غم سے بچنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی کا حصول۔ چناچہ فرمایا : ”سن لو ! بیشک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ یعنی آخرت میں یا دنیا اور آخرت دونوں میں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ خوف (ڈر) آنے والی چیز کا ہوتا ہے اور غم گزری ہوئی مصیبت کا۔ اللہ تعالیٰ کے اولیاء (دوستوں) کو مستقبل کا کوئی خوف نہیں، کیونکہ آخرت میں وہ ہر خوف سے آزاد ہوں گے۔ وہاں انھیں نہ کسی مصیبت کے آنے یا نعمت کے چھن جانے کا خوف ہوگا، نہ کسی گزشتہ چیز کا غم۔ اس کے برعکس چونکہ اللہ کے دشمنوں کا نہ آخرت پر ایمان ہے نہ اس کی نعمتوں میں ان کا کوئی حصہ، فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ) [ ہود : 16 ] ”یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے اس دنیا میں کیا اور بےکار ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔“ اس لیے ان کا ایک ایک لمحہ خوف میں گزرتا ہے، جو نعمت انھیں حاصل ہے اس کے چھن جانے کا خوف اور جو حاصل نہیں اس کے حاصل نہ ہوسکنے کا غم، پھر موت کا خوف، پھر بعد میں کیا ہوگا، کچھ خبر ہی نہیں، غرض خوف ہی خوف۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال و اولاد کو بھی حیات دنیا میں انھیں عذاب دینے کا ذریعہ بتایا۔ اللہ کے اولیاء کو آخرت میں کوئی غم نہیں ہوگا، کیونکہ ان پر دنیا میں گزری ہوئی ہر تکلیف جنت کی ایک ڈبکی سے کافور ہوجائے گی، پھر غم کیسا ؟ دنیا میں آنے والی مصیبتیں دنیا میں بھی ان کے لیے کفار کی طرح غم کا باعث نہیں بنتیں، کیونکہ ایک تو انھیں ہر مصیبت پر اجر کی امید ہوتی ہے، دوسرے تقدیر پر ان کا ایمان انھیں کفار جیسے غم سے بچاتا ہے کہ اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی کوئی مصیبت ہماری کسی تدبیر سے نہ ٹل سکتی تھی، نہ ٹل سکتی ہے، پھر غم سے کیا حاصل، فرمایا : (لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ) [ الحدید : 23 ] ”تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا کرے۔“
2 سال پیش در تاریخ 1401/09/20 منتشر شده است.
3,901 بـار بازدید شده
... بیشتر