Best appreciated Urdu speech | Popular Taqreer | All Pakistan Bilingual Declamation Contest 2022

Saqib Muhammad
Saqib Muhammad
694.4 هزار بار بازدید - 2 سال پیش - The speech that got the
The speech that got the best applause of the audience in the All Pakistan Bilingual Declamation Contest 2022 held at Chenab College Jhang in Urdu under the title
قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے

Best appreciated Urdu speech, Popular Taqreer, All Pakistan Bilingual Declamation Contest 2022 held at Chenab College Jhang. Following is the text of speech in Urdu:
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
تاریخ کربلائے سخن! دیکھنا کہ میں
خون جگر سے لکھ کےورق چھوڑ جاؤں گا
صدر فہم و ادراک اور ایوان خود دار و بےباک
11 ستمبر 1948 کا منظر ہے۔ کوئٹہ کے ائیرپورٹ سے ایک جہاز اڑان بھرتا ہے۔ فضاؤں کا سینہ چیرتا ہوا کراچی میں آ اترتا ہے۔ ایک نحیف و نزار مریض کو ایمبولنس میں ڈالا جاتا ہے۔ ایمبولنس روانہ ہوتی ہے مگر رستے میں خراب ہو جاتی ہے۔ بروقت طبی امداد میسر نہ ہونے کی وجہ سے، پوری قوم کی نبضیں ابھارنے والے کی اپنی نبضیں ڈوب جاتی ہیں۔
منظر بدلتا ہے۔ 16 اکتوبر 1951 کا دن ہے۔ کمپنی باغ راولپنڈی میں جلسہ عام ہے۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع ہے۔ ایک طرف مائیک سے قائد ملت کی خوشنما آواز بلند ہوتی ہے۔ دوسری طرف، افغانی باشندے اکبر کے پستول سے دو گولیاں نکلتی ہیں۔ ملت کےلئے اٹھنے والی قائد ملت کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے خاموش کرا دیتی ہیں۔
منظر بدلتا ہے۔ ایک بیوہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اسکول بھیجتی ہے۔ اسکول پر دہشتگردوں کا حملہ ہوتا ہے۔ اور بیوہ کے نصیب کی آخری بتی بھی گل ہو جاتی ہے۔
منظر بدلتا ہے۔ قوم کی معصوم بیٹی، کسی بھیڑیے کی درندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔
منظر بدلتا ہے۔ لاہور کےہنستے بستے بازار میں بم دھماکہ قیامت صغری بپا کر دیتا ہے۔
کہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بےگناہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں تو کہیں مری کا برفانی طوفان سیاحوں کا قبرستان بن جاتا ہے۔
عالی جناب کراچی کا سنسان رستہ، راولپنڈی کا کمپنی باغ، اور پشاور کا آرمی اسکول ہی نہیں، وطن عزیز کا ذرہ ذرہ اپنی تاریک آنکھیں اور تاریک تر نصیب لیے زبان حال سے چلا رہا ہے، کہ
قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے
قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے
گناہ گار ہے کون اور خوں بہا کیا ہے

جناب صدر، وطن کی سوگوار فضاؤں سے نکل کر، اقوام عالم کی بےضمیری بھی ملاحظہ ہو۔ فلسطین میں بربریت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ مگر امن کے سفیر امن میں ہیں۔
برما میں امت مسلمہ کے قتل کا بازار گرم ہوتا ہے، مگر حقوق انسانی کے علمبردار سوئے رہتے ہیں۔
کشمیر میں "اٹوٹ انگ" کی سفاکانہ ضد، خون کی ہولی کھیلتی ہے۔ مگر اقوام عالم پر سکوت طاری ہے۔
فرانس میں ناموس رسالت پر رکیک حملے کی جسارت کی جاتی ہے۔ مگر ضمیر عالم پر مردنی چھائی رہتی ہے۔
سو اب میں نے بھی ٹھانی ہے کہ اب منظر نہیں بدلنا، اب خون تمنا نہیں ہونے دینا، اب قصاص کی بھیک نہیں مانگنی بلکہ نعرہ دلگیر بن کر، عزم شبیر بن کر، اور حیدر کی شمشیر بن کر اب تقدیر کو بدلنا ہے۔ اس نظام ظلم کو بدلنا ہے۔ اور اس کار خوں طلب میں، میرا لہو بھی اگر بہے، تو کوئی پروا نہیں کیونکہ
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
ذی وقار! اقوام عالم کو یہ خبر کر دی جائے۔ سامراجی خداؤں کو بتا دیا جائے۔ کہ میں اقبال کا شاہین ہوں۔ میں پرواز سے تھک کر نہیں گرتا۔ میں قہاری بھی ہوں اور غفاری بھی۔ قدوسی بھی ہوں اور جبروت بھی۔ حیدری فقر بھی میرا اور دولت عثمانی بھی میری۔ عصائے کلیمی بھی میرا اور ضرب یداللہی بھی میری۔ میں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہتا ہوں کہ
قاتل میرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
میں اپنے ڈوبنے کی علامت کے طور پر
دریا میں اک آدھ بھنور چھوڑ جاؤں گا
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا




#funcar #popularspeaker #bestappreciatedspeech
2 سال پیش در تاریخ 1400/11/11 منتشر شده است.
694,493 بـار بازدید شده
... بیشتر